یوں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بہت سے صحابیوں کو مختلف اوقات میں جنت کی بشارت دی تھی اور دنیا ہی میں ان کے جنتی ہونے کا اعلان فرمادیا تھا مگر دس ایسے خوش نصیب صحابہ کرام ہیں جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کے منبر شریف پر کھڑے ہوکر ایک ساتھ ان کا نام لیکر جنتی ہونے کی خوشخبری سنائی تھی ، تاریخ میں ان خوش نصیبوں کا لقب عشرہ مبشرہ ہے جن کی مبارک فہرست یہ ہے
۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ
۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ
۔حضرت علی مرتضٰی رضی اللہ عنہ
۔حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ
۔ حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ
۔حضرت عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ
۔حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
۔حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ
۔حضرت ابو عبیدہ بن الجراحرضی اللہ عنہ
(ترمذی جلد دوئم ، مناقب عبدالرحمان بن عوف )
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
میرے صحابہ کو برا نہ کہو اور نہ گالی دو، اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے اگر کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کردے تو وہ ان کے مد اور نہ ہی اس کے نصف تک پہنچ سکتا ہے۔
صحیح بخاری حدیث صحیح مسلم حدیث
ایک دفعہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غزوہءبدر کے لئے مدینہ منورہ سے چلنے لگے تو مدینے کے ایک گھر میں “ ایک باپ اور بیٹے “ کے درمیان عجیب و غریب اور بےنظیر مباحثہ جاری تھا۔
باپ! “بیٹا! گھر میں ہم دونوں کے سوا کوئی مرد نہیں، اس لئے مناسب یہی ہے کہ ہم دونوں میں سے کوئی ایک گھر رہے اور دوسرا جہاد میں شریک ہو۔تو تم جوان ہو اور گھر کی دیکھ بھال بہتر طور پر کر سکتے ہو۔ اس لئے تم گھر رہو اور مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جانے دو۔“
اس کے جواب میں سعادت مند فرزند نے عرض کی، “باباجان! اگر جنت کے علاوہ اور کوئی معاملہ ہوتا تو مجھے گھر پر رہنے میں کوئی عذر نہ تھا۔ مجھے اللہ تعالٰی نے اتنی قدرت دی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہمرکابی کا حق ادا کر سکوں۔ اس لئے آپ یہاں رہئے اور مجھے جانے کی اجازت دیجئے۔ شاید اللہ تعالٰی مجھے شرف شہادت بخشے۔
بڑی تکرار کے بعد باپ نے فیصلہ کیا کہ قرعہ ڈالتے ہیں جس کا نام نکلا وہ جہاد میں جائے گا۔ بیٹے نے رضامندی کا اظہار کیا۔ قرعہ ڈالا گیا تو بیٹے کا نام نکلا۔ ان کو اتنی مسرت ہو رہی تھی کہ پاؤں زمین پر ٹکتے نہ تھے۔ ان فرزند کا نام سعد اور والد کا نام خثیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ تھا۔ حضرت سعد (رضی اللہ تعالٰی عنہ) نہایت ذوق و شوق کے ساتھ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی ہمرکابی میں بدر پہنچے اور طعیمہ بن عدی یا عمرو بن عبدود کے ہاتھوں جام شہادت نوش فرمایا۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کرتے ہیں کہ “ایک شخص نے احد کے دن رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا، “یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اگر میں شہید ہو گیا تو کہاں جاؤں گا ؟“ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، “جنت میں“ یہ سنتے ہی انھوں نے ہاتھ کی کھجوریں پھینکیں اور لڑائی میں مشغول ہو گئے یہاں تک کہ مرتبہء شہادت پایا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک جنازہ لایا گیا،تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسکی نماز جنازہ نہیں پڑھائی،جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وجہ پوچھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بغض رکھتا تھا۔ لہذا اللہ تعالیٰ بھی اس شخص سے نارض ہے۔۔۔
ترمذی حدیث3852
No comments:
Post a Comment