اسلام سے پہلے کا ایک واقعہ قابلِ ذکر ہے۔ چھٹی صدی عیسوی میں یمن میں ایک رئیس ابراہہ نامی شخص تھا۔ابراہہ عیسائی مذہب سے تعلق رکھتا تھا ۔ابراہہ کو عیسائی مذہب کی اشاعت کا بڑا خیال تھا چناچہ اس نے اپنے دارالسلطنت “ صنعاء “ میں ایک عالیشان گرجا تعمیر کروایا اور عرب والوں کو ترغیب دی کہ وہ خانہ کعبہ کا حج اور طواف کرنے کی بجائے اس گرجا کا حج اور طواف کیا کریں۔ابراہہ کا مقصد یہ تھا کہ اس طرح عرب کے لوگوں کو عیسائی بنا لیا جائے۔عرب کے اکثر قبیلوں نے ابراہہ کا یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا اس سے وہ جل گیا اور اس نے سوچا کہ خانہ کعبہ کو مسمار کر کے قصہ ہی ختم کر دے ، چناچہ وہ بہت بڑے لشکر کے ساتھ کعبہ کو مسمار کرنے کے لئے نکلا۔ابراہہ کا لشکر جب مکہ کے قریب پہنچا تو لشکر والوں نے مکہ والوں کا بہت سامان لوٹا جس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب کے دو سو اونٹ بھی تھے۔حضرت عبدالمطلب لشکر گاہ میں ابراہہ کے پاس پہنچے ، ابراہہ نے ان کی بڑی تعظیم کی اور اپنے برابر بٹھایا اور پھر آنے کی وجہ پوچھی ،حضرت عبدالمطلب نے کہا کہ آپ کے سپاہی میرے دو سو اونٹ لے آئے ہیں ،انہیں واپس دلا دیجئے ۔ابراہہ نے کہا کہ سرادار مکہ مجھے تعجب ہے کہ تم نے اپنے اونٹوں کے متعلق سوال کر دیا مگر کعبہ کے متعلق کچھ نہ کہا جسے میں گرانے آیا ہوں۔حضرت عبدالمطلب نے جواب دیا ، اے بادشاہ میں تو اونٹوں کا مالک ہوں لہذا مجھے ان کی فکر ہوئی جو کعبہ کا مالک ہے وہ اس کا انتظام کر لے گا۔ابراہہ اس جواب کو سن کر چپ ہو گیا اورحضرت عبدالمطلب کے اونٹ واپس کرنے کا حکم دیا۔ابراہہ کے پاس سے لوٹ کرحضرت عبدالمطلب کعبہ میں گئے اور اس کا حلقہ پکڑ کر اللہ تعالیٰ سے اس کی حفاظت کی دعا مانگی اور پھر سب مکہ والوں کو لے کر آس پاس کی پہاڑوں میں ُچھپ گئے۔اللہ تعالیٰ نے حضرت عبدالمطلب کی دعا قبول فرمائی۔جونہی ابراہہ نے مکہ داخل ہونے کا اراداہ کیا ، ہزارہا پرند فضا نیں چھا گئے جن کی چونچ اور پنجوں میں چھوٹی چھوٹی کنکریاں تھیں یہ کنکریاں انہوں نے ابراہہ کی فوج پر برسانی شروع کر دیں۔کنکریاں کیا تھیں اللہ تعالےٰ کا عذاب تھیں۔ جس کے سر پر پڑیں اسے زندہ نہ چھوڑا۔ابراہہ کی ساری فوج ہلاک ہو گئی۔ابراہہ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ بھاگ کر یمن پہنچا جہاں کچھ عرصہ بعد وہ مر گیا۔مکہ والوں نے اس غیبی فتح کی بڑی خوشی منائی ۔
No comments:
Post a Comment